قرآن میں اعراب کے بغیر تلاوت اور اس کے اثرات Started by Nizam Ud Deen Usman · 0 Replies
قرآن مجید کی نزول کے وقت نہ تو اس پر اعراب (زبر، زیر، پیش) موجود تھے اور نہ ہی وقف و علامات۔ عرب اپنی زبان کی فصاحت و بلاغت اور لغوی واقفیت کی بنیاد پر بغیر اعراب کے درست تلفظ اور معنی سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ جیسے جیسے اسلام مختلف علاقوں اور غیر عرب اقوام میں پھیلا، بغیر اعراب کے قرآن پڑھنے میں غلطیاں بڑھنے لگیں۔ اس سے نہ صرف قراءت میں فرق پڑا بلکہ بعض اوقات معانی میں بھی تبدیلی کے خدشات پیدا ہوئے۔
1. قرآن کی ابتدائی کتابت اور اعراب کی غیر موجودگی
سب سے پہلے قرآن کریم بغیر نقطوں اور اعراب کے لکھا جاتا تھا۔
صحابہ کرام اور تابعین اپنی زبانی روایت اور عربی فطانت کی وجہ سے بغیر اعراب کے بھی درست قراءت کرتے تھے۔
مثال: "كتب" کا مطلب "کتب" (he wrote) بھی ہو سکتا ہے اور "کُتُب" (books) بھی۔ عرب سیاق و سباق سے درست معنی سمجھ لیتے تھے۔
2. بغیر اعراب کے تلاوت کے اثرات
الف) قراءت میں اختلافات
بغیر اعراب کے قرآن پڑھنے سے ایک ہی آیت کی کئی ممکنہ قراءتیں سامنے آئیں۔
ان اختلافات نے بعد میں قراءتِ سبعہ اور قراءتِ عشرہ کی بنیاد رکھی۔
ب) معانی میں تبدیلی کا امکان
اعراب کے بغیر آیت کے معنی کبھی کبھی بالکل مختلف ہو سکتے ہیں۔
مثال: رَبُّنَا اللَّهُ اور رَبَّنَا اللَّهُ میں فرق معنی کو بدل سکتا ہے۔
ج) فقہی مسائل پر اثر
بعض آیات کی تلاوت میں فرق سے فقہی احکام میں اختلاف پیدا ہوا۔
وضو، نماز اور میراث کے مسائل میں اعراب کی موجودگی یا عدم موجودگی کا بڑا اثر ہے۔
3. محدثین اور مفسرین کی تشویش
غیر عرب مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے تعلق کے بعد محدثین اور مفسرین کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ بغیر اعراب کے تلاوت کرنے سے قرآن کے اصل معانی بگڑ سکتے ہیں۔
امام ابوالاسود الدؤلی نے سب سے پہلے اعراب لگانے کا طریقہ ایجاد کیا تاکہ تلاوت آسان اور محفوظ ہو۔
4. مثبت اور منفی پہلو
مثبت پہلو:
اعراب نہ ہونے کے باوجود عرب اپنے فہم اور فصاحت کی بدولت درست معنی سمجھ لیتے تھے۔
اس نے مختلف قراءتوں کو جنم دیا جو قرآن کی فصاحت اور وسعت کو ظاہر کرتی ہیں۔
منفی پہلو:
غیر عرب اقوام میں قرآن کی تلاوت مشکل ہو گئی۔
معانی میں بگاڑ کے امکانات بڑھ گئے۔
غلط تلاوت کبھی کبھی فقہی یا اعتقادی غلطیوں کا باعث بن سکتی تھی۔
5. نتیجہ
قرآن کی تلاوت بغیر اعراب کے ابتدائی دور میں تو قابلِ عمل تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نے کئی مشکلات پیدا کیں۔ اسی لیے بعد میں اعراب اور علاماتِ وقف کو رواج دیا گیا تاکہ قرآن ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے یکساں اور درست انداز میں پڑھا جا سکے۔ اعراب کے بغیر تلاوت نہ صرف تلفظ اور قراءت میں اختلاف پیدا کرتی ہے بلکہ معانی اور تفسیر میں بھی ابہام پیدا کر دیتی ہے۔